Mchoudhary

Add To collaction

کبھی روگ نہ لگانا پیار کا (session1)بقلم ملیحہ چودھری

                                   قسط2

عالیان ملک شاہ___!!!!!!
  جو اپنے بڑے بھائیوں  سے بلکل مختلف مزاج میں بھی اور سخصیت میں بھی۔۔
چھ فٹ چار انچ لمبا قد خوبصورت سے آنکھیں کھڑی ناک والا شرارتی سا شہزادہ۔۔
اُس سے جو بھی ملتا سب کو اپنے ہی رنگ میں ملا لیتا۔۔۔۔۔
صرف تین  شخص کے علاوہ۔۔
دونوں اُسکے بڑے بھائی۔۔
جن سے اُسکی کبھی بنی ہی نہیں۔۔۔
اور تیسری اُسکی ماما جو ہمیشہ اُسے مائشا سے الگ رہنے کے لیکچر دیتی رہتی ۔۔۔۔
وہ جب بھی سال کی ہالیڈے میں اپنا ٹائم سپینڈ کرنے انڈیا آتا۔۔۔
مائشا کے لیے ڈھیر سارے گفٹ لاتا۔۔۔
مائشا اُسے منا بھی کرتی ۔۔ 
تو اسکو یہ بول کر ٹال دیتا ۔۔۔
مایو تم مجھے اس گھر میں سب سے زیادہ پیاری ہو۔۔۔۔
میں تمہیں بتا نہیں سکتا۔۔۔
میں تمہیں دیکھنے کے لیے ہالیڈے کا کتنا بےصبری سے انتظار کرتا ہوں۔۔۔۔
یہ بس میں ہی جانتا ہوں ۔۔۔
عالیان ملک شاہ آنکھوں میں ایک الگ ہی چمک لیے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجهائے ہمیشہ مائشا کو یہیں بولتا ۔۔۔۔
اور میں بھی ۔۔۔۔
مائشا بھی خوش ہوتے ہوئے بولتی۔۔۔۔۔
آپکو پتہ ہے۔۔۔۔
مائشا جب میں تمہیں ہنستا ہوا دیکھتا ہوں نہ مجھے تمہیں دیکھ کر بہت سکون ملتا ہے۔۔۔
عالیان مائشا کو محبّت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے ہمیشہ بولتا ۔۔۔
اور تم ہنستی ہوئی خوبصورت بھی بہت لگتی ہو۔۔۔
ہمیشہ ہنستی راہ کرو۔۔۔۔
عالیان مائشا ساتھ بتائے ہووے چھوٹے چھوٹے حسین پلوں کی یاد کر رہا تھا ۔۔۔
جب اُسے اُسکے موبائل کی رنگ ٹون نے اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔
کون ہے؟؟
عالیان کو اپنے یادوں میں دخل اندازِ ذرا بھی پسند نہیں آئی۔۔
اسلئے وہ اپنی رائیٹنگ ٹیبل سے اپنا موبائل اٹھاتے ہوئے بیزاری سے بڑ بڑا یا۔۔۔۔۔
سامنے نور کلنگ لکھا ہوا دیکھ کر عالیان کے ہونٹوں پر سے ایک پل میں ساری بیزاری اُڑن چھو ہو گئی۔۔
نور ضرور حویلی میں ہوگی۔۔۔
اسلئے ہی تو فون کیا ہے۔۔۔۔

ضرور مائشا یا پھر دادو نے فون کرنے کو کہا ؟
عالیان خود سے بڑ بڑا تے ہووے نور کی کال اٹینڈ کی۔۔۔۔
السلام وعلیکم!!
دادو
عالیان چہکتے ہوئے بولا!!!
دوسری طرف سے رونے کی آواز سن کر وہ پریشانی سے کھڑے ہوتے ہووے بولا ۔۔
دادو آپ رو کیوں رہی ہے؟؟؟
کیا ہوا؟؟؟
کچھ تو بولیے۔۔۔۔۔
دادو پلز ز ز.....
میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔۔۔۔۔
دوسری طرف سے نہ جانے کیا بولا گیا ۔۔
عالیان کے ہاتھ سے موبائل گرتے ہوئے بچا۔۔
د دادو۔۔۔۔
یہ یہ آپ کیا بول رہی ہے؟؟؟
کب اور کیسے لگی مایو کو چوٹ؟؟؟
عالیان ملک شاہ جو کسی بھی حالات میں کبھی نہیں گھبراتا تھا۔۔۔۔
آج وہی عالیان شاہ ایک چھوٹی سی لڑکی کی چوٹ کا سنکر رونے لگا۔۔۔
وہ روتا بھی کیوں نہ؟؟
آخر وہ بھی انسان تھا!!
اور پھر تھی بھی تو وہ چھوٹی سی لڑکی اُسکی محبّت۔۔۔۔
عالیان کچھ وقفہ بعد خود کو سنبھالتے ہوئے بولا۔۔۔
دوسری طرف دادو نے ایسا کیا کہا تھا ؟
اور آپ مجھے اب بتا رہی ہے۔۔۔۔
عالیان کو مایو کی چوٹ کا چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد پتہ چلنے پر غصّہ ہی تو اس گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ 
عالیان اپنا غصّہ کنٹرول کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔
دادو آپ فکر مت کرے۔۔
ہماری مایو کو کُچّھ نہیں ہوگا ۔۔
اور میں بھی ابھی پہلی فلائٹ سے آنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔
عالیان نے یہ بول کر کال کاٹ کر لپٹوپ کھول کر آنلائن انڈیا کی ٹکٹ کرانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔۔
لیکن افسوس۔۔۔
دس منٹ دماغ خفانے کے بعد بھی۔۔۔۔
انڈیا کی کوئی بھی ایمرجنسی ٹکٹ نہیں ملی تھی؟؟
یا اللہ ا ا ا........
عالیان نے آنکھوں میں آنسو لیے چلاتے ہوئے اللہ کو یاد کیا۔۔۔۔
اور یہ سچ بھی ہے۔۔۔۔۔
جب انسان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا۔۔۔۔
تو اُسّے صرف ایک یاد آتا ہے۔۔۔
اور وہ ہے۔۔۔
سارے جہاں کا مالک ہر چیز پر قادر صرف ایک ہی ہے۔۔
اور وہ ہے ۔۔
الله!!!
اللہ کو یاد کر لو۔۔۔
تم اسکو ایک بار یاد کروگے۔۔
وہ تمہیں دس دفاع یاد کریگا۔۔
بے شک وہ بہت رحم کرنے والا ہے۔۔۔
وہ اپنے بندوں سے ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے ۔۔۔
عالیان ملک شاہ کو اللہ کا نام لیتے ہی ایک سکون سا پورے وجود میں ٹھہرتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔
اُسنے جلدی سے اپنے آنسو پوچھے اور نور کے فون پر کال ملائی ۔۔۔۔۔
کچھ وقفہ میں دوسری طرف سے کال اٹھا لی گئی۔۔۔
ہ ہیلو!!
السلام وعلیکم!!!
نور میں عالیان بول رہا ہوں ۔۔۔
دوسری طرف سے سلام کا جواب ملنے کے بعد عالیان بولا۔۔۔۔
نور دادو کو فون دو۔۔۔۔
دوسری طرف سے نہ جانے کیا کہا گیا۔۔۔
عالیان بولا ۔۔
اچّھا!!!
تو تم دادو کو بتا دینا کی میری ٹکٹ نہیں ہوئی۔۔۔۔
لیکن میں جلد ہی آنے کی کوشش ضرور کروں گا۔۔۔۔
اور ہاں۔۔۔
نور مجھے وقفہ وقفہ پر مایو کے بارے میں بتا تی رہنا۔۔۔۔۔
دوسری طرف سے جواب ملنے کے بعد عالیان بولا دادو کا خیال رکھنا ۔۔۔۔۔
اللہ حافظ
یہ بول کر عالیان نے کال کاٹ دی اور وضو کرنے کے لیے باتھرُوم میں چلا گیا ۔۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ وضو کرکے باتھرُوم سے نکلا ۔۔۔
دو رکعت نماز نفل پڑھنے کے لیے جائے نماز بچھائی۔۔۔
نماز کی نیت باندھ کر بارگاہ الٰہی کے آگے سجدے کر نے کے لیے جھک گیا ۔۔
بے شک اللہ ہی ہے۔۔۔
جو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔۔۔
**************************
نور دادو کی بات عالیان سے کرانے کے بعد اپنے بابا پر کال ملانے کے لیے دادو کے روم کے ٹیرس پر آئی تھی۔۔۔
وہ کُچّھ سوچتی ہوئی بابا کو کال ملانے لگی
لیکن دوسری طرف سے کوئی کال اٹینڈ ہی نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔
نور اپنے بابا کے موبائل پر بار بار کال ملاتی رہی۔۔۔
لیکن کوئی بھی اٹھانے کی زحمت نہیں کر رہا تھا۔۔۔
نور خود سے بڑ بڑا تی ہوئی بولی۔۔۔
بابا پلیز کال اٹھائے نہ۔۔۔۔
نور کو کال ملاتے ہوئے دس منٹ ہو گئے ۔۔۔۔۔
لیکن سب بے سود۔۔۔۔
وہ ابھی دوبارہ کال ملانے لگی تھی ۔۔۔
جب اس کے موبائل پر عالیان کی کال آنے لگی۔۔۔۔
عالیان بھائی!!! 
نور نے بڑ بڑا تے ہووے کال اٹینڈ کی۔۔۔۔۔
ہیلو !!!
وعلیکم السلام!!!
نور نے عالیان کی سلام کا جواب دیا۔۔۔۔۔
دوسری سائڈ سے شائد وہ دادو کا پوچھ رہا تھا۔۔۔
جس پر نور نے ٹیرس پر سے روم کے اندر جھانکتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
دادو ابھی نماز پڑھ رہی ہے۔۔۔
آپ مجھے بتا دیجئے ۔۔۔
میں دادو کو بتا دوں گی۔۔۔۔
نور عالیان سے بولی۔۔۔۔
جب عالیان نے نور کو بتا دیا ۔۔۔
تو نور بولی ۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں بتا دوں گی ۔۔۔
اوکے!!! 
میں مایو کے ہسپتال سے آنے تک حویلی میں ہی ہوں ۔۔۔
میں وقفہ وقفہ پر آپ سے رابطہ کرتی رہوں گی۔۔۔
نور نے عالیان سے اللہ حافظ بول تے ہوئے فون کان سے ہٹایا۔۔۔۔
اور دادو کو عالیان کی کال کا بتانے کے لیے روم میں چلی گئی۔۔۔۔۔ 

************************

ایک بار پھر آپریشن روم کا دروازہ کُھلا ۔۔۔۔۔
ابکی بار روم سے نکلنے والے شخص ڈاکٹر صرفان تھے ۔۔۔۔
شاہزیب دروازے کے کھلتے ہی ایکدم کھڑا ہو گیا۔۔۔۔
شہزین جو کسی گہری سوچ میں تھا۔۔۔
شاہزیب کو یوں کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا ۔۔۔۔
پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔۔۔
کیا ہوا؟؟؟
یوں ایکدم کھڑے ہونے کی وجہ؟؟
شہزین شاہزیب سے بولا۔۔۔
بھائی وہ...
شاہزیب ابھی بول ہی رہا تھا ۔۔۔۔
جب ڈاکٹر صرفان آپریشن روم سے نکلتا ہوا دکھائی دیا ۔۔۔
شاہزیب بات کو بیچ میں چھوڑتے ہوئے صرفان کی طرف لپکا 
شیری!!
یار اب کیسی ہے مایو ؟؟؟
شاہزیب پریشان ہوتے ہوئے بولا ۔۔۔
ڈاکٹر صرفان بولے۔۔۔۔
شاہو !!
ابھی تمہاری کزن کی حالت بہت کریٹیکل ہے۔۔۔
ہم نے سوچا تھا۔۔۔
چوبیس گھنٹے میں تمہاری کزن کو ہوس آ جائےگا۔۔۔۔
لیکن نہیں!!!
ہم کوشش کر رہے ہیں۔۔۔
لیکن اسے ہوس کیوں نہیں آ رہا ہے؟؟
شہزین نے صرفان سے پریشان ہوتے ہووے پوچھا۔۔۔
بھائی اُسکے سر میں بہت گہری چوٹ لگی ہے۔۔۔
ہم کوشش کر رہے ہیں ۔۔۔
لیکن ہماری ہر کوشش بے سود جا رہی ہے۔۔۔
اب انکے پاس صرف چار گھنٹے باقی ہے ۔۔۔
اگر ان چار گھنٹوں میں ہوس آ تا ہے۔۔۔۔
تو ٹھیک!!!
نہیں تو پھر ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔۔۔
ابھی تو فلحال انکو بلڈ کی شدید ضرورت ہے ۔۔۔۔
کیونکہ۔۔۔

انکا بلڈ کافی بہ گیا ہے۔۔۔۔
ہسپتال بلڈ بینک میں تو انکے بلڈ گروپ سے ملتا ہوا بلڈ موجود نہیں ہے۔۔۔۔
شاہو !!
اب تمہیں ہی باہر سےانتظام کرنا ہوگا۔۔۔۔۔
رپورٹس تو تمہیں مل ہی گئی ہوگی۔۔۔
صرفان شاہزیب کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔
ہاں!!
رپورٹ تو مل گئی ہے۔۔۔۔ 
اس سے پہلے شاہزیب کچھ جواب دیتا ۔۔۔
شہزین نے صرفان کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
شیری!!!
کب تک چاہئے رپورٹس؟؟؟.
شاہزیب صرفان کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا۔۔
دو گھنٹے میں ۔۔۔۔
ٹھیک ہے!!
میں کرتا ہوں انتظام بلڈ کا۔۔۔۔۔۔
اوکے !!!!
جلد سے جلد کرنا
ڈاکٹر صرفان یہ بول کر وہاں سے چلے گئے۔۔۔۔ شاہزیب۔۔۔۔
بھائی!! 
اب کیا ہوگا؟؟؟..
صرف دو گھنٹے ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے پاس۔۔۔ 
بابا بھی گھر پر چلے گئے ہے ۔۔۔۔۔۔
شاہزیب پریشان ہوتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
کیا؟؟؟؟
شہزین چلاتے ہوئے بولا....
لیکن کیوں؟؟
شاہزیب جو پریشان سے کسی گہری سوچ میں تھا ۔۔۔۔
اپنے بڑے بھائی کو اس طرح چلاتے ہووے دیکھا جو کی اُسکی شخصیت کے بر خلاف تھا ۔۔۔
حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
بھائی آپ ایسے کیوں چلائے؟؟؟
شہزین بولا میں اسلئے چلّایاہوں ۔۔۔۔
کہ بابا اپنی پیاری سی بھتیزی کو ایسے اس حال میں کیسے چھوڑ کر جا سکتے ہیں؟؟؟؟
بھائی!!! 
بابا چھوڑ کر نہیں گئے ہیں۔۔۔
بلکہ ان کو میں نے بھیجا ہے۔۔۔۔
کیونکہ
بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ۔۔
انکا سگر کافی بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
اسلئے میں انکا سگر ٹیسٹ کروا کر واپس بھیج دیا ہے ۔۔۔
شاہزیب نے اپنے بڑے بھی شہزین کو بتایا۔۔۔
شہزین نے اچّھا بول کر بات ہی ختم کر دی ۔۔
تم پریشان میں ہو۔۔۔
ہ انتظام ہو جائےگا۔۔۔۔۔
شہزین شھزيب کو تسلّی دیتے ہوئے بولا۔۔۔
ابھی تم نے ہی کہا تھا 
بھائی پریشان مت ہو انشاءاللہ سب ٹھیک ہو جائےگا ۔۔۔
اور اب تم ہی پریشان ہو ۔۔۔
شہزین کُچّھ دیر پہلے کی بات جو شاہزیب نے شہزین کو کہیں تھی اُسکی دوہراتے ہوئے بولا۔۔۔
ہاں بھائی!!
آپ ٹھیک بول رہے ہیں۔۔
ویسے تو بھائی ہمیں اس منہوس کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔
لیکن ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی اُسکے لیے بلڈ کا انتظام کرنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہزیب منہوس پر جور دیتے ہوئے نفرت سے بولا۔۔۔ہاں تم ٹھیک بول رہے ہو۔۔۔
شہزین نے شاہزیب کی ہاں میں ہاں ملاتے ہووے جواب دیا۔۔۔۔
نہیں تو ماما کو خطرہ ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔
شہزین بولا۔۔۔
چھوڑو ان باتوں کو۔۔
شہزین جھنجھلائے ہوئے انداز میں بولا۔۔۔
میں کرتا ہوں کسی سے بات ۔۔
شہزین اپنی پاکٹ سے موبائل نکالتے ہووے کسی کا نمبر ملانے لگا۔۔۔۔
ابھی وہ نمبر ملا ہی رہا تھا جب شاہزیب نے شہزین سے پپوچھا۔
بھائی!!!!!
اس منہوس کا بلڈ گروپ کیا ہے؟؟؟؟
O negetive
شہزین نے فون کان سے لگاتے ہووے بتایا۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے !!!
بھائی۔۔۔۔
میں کرتا ہوں کسی بلڈ بینک سے رابطہ
شاہزیب یہ بول کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔
اِن دونوں کی گفتوگو کسی تیسرے شخص نے بھی بہت غور سے سنی تھی
اور ان کی بات سننے کے بعد اسے اُن کی سوچ پر بہت افسوس ہوا۔۔۔۔
یہ دنیا کیسے کیسے بے رحم لوگوں سے بھری پڑی ہیں۔۔۔۔
وہ شخص بڑ بڑا تا ہوا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔۔

************

منہال جب یاسمین (منہال کی سیکرٹری ) کے بتائے ہوئے ہاسپٹل گیا۔
وہاں جاکر اُسنے ہسپتال کی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کی۔۔۔۔
پھر چہرے پر ماسک لگایا سر پر کیپ پہنا اور گلاسز لگا کر گاڑی سے باہر نکلا۔۔۔۔
اور اپنے قدم ہسپتال کے اندر بڑھا دیے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ ہسپتال کے اندر جا ہی رہا تھا۔۔۔۔۔
جب اُسکی نظر ہسپتال کے نام پلیٹ پر پڑی۔۔۔۔
اُسنے نے جب ہسپتال نام پڑھا تو حیران رہ گیا۔۔۔۔۔
(JRSH)
جہانگیر راجپوت سرجن ہسپتال
یہ تو جہانگیر(صرفان کے بابا) انکل کا ہسپتال ہے۔۔۔
منہال خود سے بڑ بڑا تے ہوئے اندر کی جانب قدم بڑھا دیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منہال نے ہسپتال کے اندر جاکر ا یاسمین کو فون لگایا۔۔۔
کچھ دیر بعد یاسمین نے کال پک کر لی تھی۔۔۔
ہیلو!!!
منہال اپنی بھری مغرور آواز میں بولا۔۔۔
یاسمین روم نمبر کیا ہے؟؟؟
دوسری طرف سے یاسمین بولی۔۔
Sir
روم نمبر 261 سیکنڈ فلور ہے۔۔۔
اوکے!! 
منہال نے یہ بول کر کال ڈسکنکٹ کر دی۔۔۔
اور روم نمبر 261 کی طرف چل دیا۔۔۔
وہ روم کو ڈھونڈ تا ہوا جا رہا تھا۔۔۔۔
جب اسے کسی کی آپس میں بات کرتے ہوئے آواز آئی۔۔۔۔
وہ ان کی باتیں ان سنی کرتے ہوئے وہاں سے جانے لگا۔۔۔
لیکن اُسکا دل ہی نہیں کر رہا تھا۔۔
کہ وہ انکی باتیں نظر انداز کریں۔۔۔۔۔
اُسنے اپنے دل کی سنتے ہووے وہیں پر کھڑا ہوکر انکی باتیں سن نے لگا۔۔۔۔۔
جو باتیں اُس نے سنی۔۔۔
اُن باتوں کو سن کر اسے بہت افسوس ہوا۔۔۔۔
وہ سوچنے لگا کہ دنیا اتنے بھی بے رحم ہوتی ہے۔۔۔
منہال یہ سوچ کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔ 
منہال نے پہلے ڈائریکٹر کی وائف کی خیریت دریافت کی ۔۔۔۔
پھر وہ صرفان سے ملنے اُس کے روم کی طرف چل دیا ۔۔۔۔۔
صرفان منہال کا بچپن کا بیسٹ فرینڈ تھا۔۔۔۔
جب وہ ڈاکٹر  کے روم میں گیا۔۔۔ تو صرفان کسی سے بات کر رہے تھے۔۔۔۔۔
جس سے صرفان بات کر رہے تھے ۔۔۔۔
اُسکی پیٹھ دروازے کی طرف تھی ۔۔۔۔ صرفان نے جب منہال کو دیکھا تو خوشی اور محبّت سے اسکی آنکھیں چمک اٹھی۔۔۔
صرفان شاہزیب کی ذات کو ایکدم فراموش کرتے ہوئے منہال کی پاس گیا ۔۔۔۔۔
O ho....
آج تو بڑے بڑے لوگ اس غریب خانے میں آئے ہیں۔۔۔۔
بھئی!!!
ہمیں تو مٹھائی شیٹھای باٹنی چاہئے۔۔۔
صرفان منہال کو چھیڑتے ہووے بولا ۔۔۔۔۔۔
ہو گیا !!
منہال ایک دم سنجیدہ انداز اپناتے ہوئے بولا۔۔۔
صرفان ڈھیٹ پن کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے بولا نہیں!!!
تو پھر تم شروع کرو ۔۔۔۔
اور میں جا رہا ہوں۔۔۔
منہال صرفان کو دھمکی دیتے ہوئے بولا ۔۔۔
ہاں یہ صحیح ہے۔۔۔۔۔
تم سے تھوڑا سا بھی مذاق کرو تو تم دھمکی اور اتر آتے ہو۔۔۔۔
صرفان منہ پھلاتا ہوا بولا ۔۔۔
منہال کو اس کے ایسے منہ پھلانے پر بہت ہنسی آئی جسے بر وقت وہ روک گیا تھا۔۔۔
اور اپنے وہی سنجیدہ اور سڑو سا انداز اپناتے ہووے بولا۔۔۔۔
ہاں!!
تو تم کرتے ہی کیوں ہو ایسے مذاق؟؟؟
جس پر مجھے تمہیں دھمکی دینی پڑے۔۔۔۔
تو تم مجھ سے اتنے دنوں میں ملتے ہی کیوں ہو۔۔
صرفان نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔۔۔
ہاں تو !!
تم کون سا میری محبوبہ ہو؟؟
منہال اُسکے گلے لگتے ہووے لفظ بہ لفظ چباتے ہووے بولا۔۔۔
نہیں میں تمہاری محبوبہ تو نہیں!!!
لیکن ہاں میں تمہاری بیوی کا سوتن ضرور بن جاؤں گا۔۔۔
صرفان نے بھی اس کے سوال کا جواب اسی کے انداز میں دیا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے میں اس قدر مگن تھے۔۔۔۔
جب اُن دونوں کو کسی کے ہسنے کی آواز آئی۔۔۔
منہال نے اپنی نظر اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔
صرفان نے بھی پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔
پھر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر شرم سے نظریں جھکلی۔۔۔۔
جب صرفان اپنی خفت مٹاتے ہوئے اپنے سر میں ہاتھ مارا۔۔
Oh شِٹ
میں نے تم دونوں کا تو آپس میں تعارف تو کرایا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔
منہال یہ شاہزیب میرا دوست ۔۔
اور
شاہزیب یہ میرا کزن پلس میری جان سے پیارا دوست MS
صرفان ان دونوں کا آپس میں تعارف کراتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
بھئی مجھے یہیں پر کھڑا رکھوگے کیا۔۔۔۔؟
مجھے اندر بلانے کا کوئی ارادہ ہے بھی یا نہیں۔۔۔۔
منہال ہی پیارے طریقے سے پیارا سا طنز کرتے ہوئے بولا۔۔۔
ہاں آؤ اندر۔۔۔
صرفان نے منہال کو اندر آنے کا راستہ دیا۔۔۔
شاہزیب جو بہت ہی غور سے ان دونوں کی نوک جھونک انجوئے کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا ۔۔۔
آخر میں نے انکو کہا دیکھا ہے۔۔۔
پھر یاد آنے پر بولا۔۔۔
آپ تو منہال سلمان شاہ ہے نہ ۔۔۔۔
جو فلم انڈسٹریز کے کنگ ہے۔۔۔
اور آپکو سب پیار سے۔۔۔۔۔

MS
بھی کہتے ہیں۔۔۔۔. 
ہیں نہ!! 
آئی ایم رائٹ۔ 
شاہزیب نے اپنی بات کی تائید چاہی۔۔۔ 
جی!! 
بلکل۔۔۔ 
میں ہی ہوں... 
منہال شاہزیب کے ایسے پوچھنے پر بلکل بھی حیران نہیں ہوا تھا۔۔۔. 
کیونکہ یہ اسکے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔۔۔۔. 
منہال ایک لفضی جواب دیکر خاموش ہو گیا۔۔۔.
اس خاموشی کو توڑتے ہووے صرفان بولا۔۔
کیا لوگے؟؟.
چائے یہ کافی۔
کچھ بھی نہیں!!
بس یہاں پر کچھ کام تھا۔۔۔۔
سوچا تُجھے بھی ایک ملاقات کر لوں۔۔
بہت دن ہو گئے تھے تُجھے سے ملاقات ہوئے۔۔۔۔
منہال صرفان سے بولا ۔۔۔۔
اچّھا اب چھوڑو ان باتوں کو اب آ ہی گئے ہو تو کچھ لینا بھی پڑےگا ۔۔۔۔
صرفان منہال کو داٹنے سے کے انداز میں بولا ۔۔
ٹھیک ہے تم کافی منگالو۔۔۔
منہال ہار مانتے ہووے بولا۔۔۔۔۔
اس درمیان شاہزیب بلکل خاموش تھا۔۔۔۔
اچّھا صرفان میں چلتا ہوں ۔۔
مجھے بلڈ کا بھی انتظام کرنا ہے۔۔۔۔۔
شاہزیب نے سرفانِ سے کھڑے ہوتے ہووے کہا ۔۔۔۔
اور روم سے باہر چلا گیا۔۔۔۔
اب بتاؤ تمہیں مُجھسے کیا کام تھا ؟؟؟.
صرفان نے شاہزیب کے جانے کے بعد منہال کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھ ۔۔۔
مجھے کیا کام ہوگا ؟؟
تُجھے سے۔۔۔ 
منہال انجان بننے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔
چل کسی اور کو پاگل بنا ۔۔۔۔
مجھے نہیں ۔۔۔
سمجھے۔۔۔
ہاں یار میں بھی كسے پاگل بنا رہ ہوں ۔۔۔۔
جو پہلے سے ہی پاگل ہے۔۔۔
منہال نے ایک بار پھر اُسّے چھیڑتے ہوئے بولا۔۔۔
اچّھا ۔۔۔
میں تُجھے کہاں سے پاگل لگتا ہوں۔۔۔
صرفان نے اپنے چہرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔
بھئی مجھے تو تم پورے کے پورے پاگل لگتے ہو۔۔۔
اچّھا !!
چل جب تو اس پاگل کے پاس آ ہی گیا ہے تو اب بتا بھی دے کہ۔۔۔۔
کیا کام تھا مجھ سے تمہیں؟؟
اب تو تم نے بھی ایکسیپیٹ کر لیا ہے کی تم پاگل ہو!
منہال نے پھر سے بولا۔۔۔۔
ہاں ہاں میں نے کر لیا ہے ایکسیپٹ۔۔۔
اب بتاؤ تم ۔۔۔
صرفان جیسے چڈ ہی گیا تھا۔۔۔
ٹھیک ہے میں بتا تا ہوں 
منہال نے جیسے صرفان پر احسان کرتے ہووے بولا۔۔۔
ہاں بتاؤ۔
صرفان بولا۔۔۔
ہاں تو صرفان
مجھے تم سے یہ پوچھنا تھا کی یہ جو لڑکا ابھی باہر گیا ہے۔۔۔
کیا نام بتایا تھا تمنے۔۔
ہاں یاد آیا ۔۔۔
شاہزیب یہ جو شاہزیب ہے انکی کوئی رشتے دار یہاں پر ایڈمٹ ہے کیا؟؟؟
منہال یہ بول کر چھپ ہو گیا۔۔۔۔
ہاں 
اُسکی کجن ہے۔۔
لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو؟؟؟
صرفان نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔۔
میں اس لیے پوچھ رہا ہوں ۔۔۔
کیونکہ میں نے شاہزیب اور اُسکے بھائی کو کچھ بات کرتے ہوئے سنا تھا ۔۔
ان لوگوں کو بلڈ کی شدید ضرورت ہے۔۔
ہاں ہے۔۔
پر منہال مجھے سمجھ نہیں آ رہا ہے ۔۔۔
آخر تم پوچھنا کیا چاہ رہے ہو ۔۔۔۔
صرفان کو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔۔
اس لیے اُسنے منہال سے پوچھا۔۔۔
میں تم سے اس لیے پوچھ رہا ہوں کیونکہ جو میں نے سنا ہے وہ سچ ہے یہ نہیں ۔۔
منہا نے صرفان سے کہا۔۔۔
صرفان بولا
ہاں سچ ہے کی اُنہیں بلڈ کی شدید ضرورت ہے۔۔۔
لیکن مجھے ابھی بھی سمجھ نہیں آیا کہ تم پوچھ کیوں رہے ہو؟؟؟
صرفان جھنجھلاہٹ سے بولا۔۔۔
کیونکہ میں بلڈ دینا چاہتا ہوں۔۔۔۔
منہال کو غصّہ ہی تو آ گیا۔۔۔۔
صرفان کو سمجھاتے ہووے۔۔۔
تو یہ بولوں نہ تم۔۔۔
اتنا سسپینس پھیلانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔
صرفان منہال کو غصے میں دیکھ کر تھوڑا نرم ہوتے ہوئے بولا۔۔۔۔
تو میں بھی تو تمہیں یہی سمجھا رہا تھا۔۔۔
لیکن تم نے میری پوری بات تو سنی نہیں ۔۔۔
اور بار بار ایک ہی بات کو دہرائے جا رہے تھے۔۔۔۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے۔۔۔
منہال صرفان کی نقل اتارتے ہوئے بولا۔۔۔۔
جس طریقے سے منہال نے صرفان کی نقل اتاری تھی نہ اُسّے دیکھ کر صرفان کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔۔
ہی ہی......
کیا دانت نکال رہے ہو؟؟؟
اپنا منہ بند کرو ۔۔۔۔
اور میرا بلڈ اُسکی لڑکی کو دینے کا انتظام کرو سمجھے۔۔۔۔
منہال صرفان کو دپٹتے ہووے بولا۔۔۔۔۔
ہاں تو تم کرتے ہی ایسا کام ہو۔۔۔
صرفان......!
منہال اسکو گھورتے ہووے بولا۔۔۔۔
اچّھا اب نہیں کرتا ٹھیک ہے ۔۔۔۔
تم یہ بتاؤ۔۔۔
تم کیوں دینا چاہتے ہو اپنا بلڈ؟؟؟
صرفان نے منہال کو جانچتی ہوئی نظروں سے دیکھ تے ہووے پوچھا ۔۔۔۔
بھئی انسانیت کے ناطے ۔۔۔
منہال بیزاری سے بولا۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔
میں کرتا ہوں ۔۔۔
صرفان منہال سے بولا۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔
صرفان مجھے کُچّھ اور باتیں تمہیں بتانی ہے۔۔۔
منہال کُچّھ سوچتے ہووے بولا ۔۔
ہاں بتاؤ!!!
وہ دراصل میں ابھی جب آ رہا تھا۔۔۔
تو میں نے شاہزیب اور اُسکے بھائی کے درمیاں ہونے والی گفتگو سنی تھی ۔۔
جو میں تمہیں بتانا چاہ رہا تھا۔۔۔۔
منہال نے شاہزیب اور اُسکے بھائی کے درمیان ہونے والی گفتگو لفظ بہ لفظ صرفاں کے گوش گذار کر دی۔۔۔۔
صرفان اس بیچ کُچّھ بھی نہیں بولا خاموشی سے
منہال کی ساری بات سنی۔۔۔۔
منہال مجھے یقین نہیں آتا کی یہ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔
لیکن کیا کریں ہوم لوگوں کی سوچ تو نہیں بدل سکتے ہیں۔۔
سيرفان افسوس کرتے ہوئے بولا۔۔۔
صرفان میں جانتا ہوں ہم لوگوں کی سوچ نہیں بدل سکتے لیکن ہم اس لڑکی مدد تو کر سکتے ہیں۔۔۔
اب فلهال میں اسکو بلڈ دے کر اُسکی جان بچانا چاہتا ہوں۔۔۔۔
اور یہ تو ہمارا فرض ہے کسی کو اگر ہماری ضرورت ہے تو ہمیں اُسکی ہیلپ کرنی چاہیے ۔۔۔۔۔۔
منہال نے بول کر صرفان کو دیکھا ۔۔۔۔۔
ہاں تم ٹھیک بول رہے منہال!!!
صرفان نے منہال کی بات پر ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔۔
تمہیں پتہ ہے صرفان پتہ نہیں پر مجھے ایسا لگتا ہی جیسے اس لڑکی کے ساتھ کُچّھ تو غلط ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔
جو یہ لوگ چھپا رہے ہیں۔۔۔
اور جیسے یہ لوگ بول رہے تھے نہ کی ماما کو خطرہ ہو سکتا ہے ۔۔۔
I am sure
کچھ تو بات ہے۔۔۔
منہال چھوڑو ان باتوں کو تم کہا ان جھنجھٹ میں پڑ گئے ہو۔۔۔
صرفاں نے منہال کو کہا۔۔۔
ٹھیک ہے تم اپنے کُچّھ ٹیسٹ کرا لو ۔۔۔۔
اگر تمہارا بلڈ مائشا کے بلڈ سے میچ کر گیا تو میں اُسکو تمہارا بلڈ دے دونگا ۔۔۔۔۔۔
صرفان منہال سے بولا۔۔
اوک !!!
کون سے روم میں جانا ہے ٹیسٹ کرانے
منہال نے صرفان سے پوچھا۔۔۔۔۔
تم کیوں جاؤگے ۔۔۔
یہ تمہارا بھائی کس لیے بیٹھا ہے۔۔۔
صرفان اپنے کالر کھڑے کرتے ہووے شرارت سے بولا۔۔۔۔
ارے ہاں!!!
میں تو بھول ہی گیا تھا کہ میں JRS ہسپتال کے اؤنیر کے سامنے بیٹھا ہوں۔۔۔۔
منہال نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔۔۔۔
اور پھر دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس پڑے۔۔۔۔ 
۔ ******************
منہال کے سارے ٹیسٹ کلیئر تھے ۔۔۔
وہ جب بلڈ دینے کے لیے اس روم میں گیا جس میں مائشا تھی۔۔۔۔۔
تو اُسکے دل نے اس لڑکی کو دیکھنے کی تمنّا کی۔۔۔ جو منہال نے دپٹّے ہوئے شانٹ کروانے کی ناکام سے کوشش کی۔۔۔
لیکن ہائے رے یہ دل ۔۔۔
کبھی کسی کی سنی بھی ہیں۔۔۔
منہال نے اس لڑکی کو دیکھنے کے لیے اس کی طرف اپنا چہرا کیا ہی تھا ۔۔ جب اسکو صرفان کی آواز سنائی دی۔۔۔۔۔۔۔
۔منہال یہاں آ جاؤ ۔۔۔
صرفان نے آواز لگاتے ہووے منہال کو بلایا۔۔۔۔
منہال مائشا کو دیکھنے کا ارادہ کینسل کرتے ہوئے صرفان کے پاس جاکر اُسکے بتائے ہوئی جگہ پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔
صرفان نے منہال سے پوچھا ۔۔۔۔
Are you ready
Yes 
I am ready
منہال سے صرفان نے کہا۔۔۔
Ok 
اب میں تمہارا بلڈ لینے کے لیے تیار ہوں۔۔۔
صرفان ایسے بول رہا تھا۔۔
جیسے وہ اُسکا بلڈ نہیں بلکہ اُسکا قتل کر رہا ہو۔۔۔
صرفان تم تو ایسے ڈرا رہے ہو جیسے تم میرا قتل کر نے والے ہو۔۔۔
منہال لفظ بہ لفظ چباتے ہووے بولا۔۔۔۔
ہاں ۔۔۔۔
تو تمہارے لیے سرنچ ایک خنجر سے کم تھوڑی ہے۔۔۔۔
صرفان نے منہال سے کہا۔۔۔
اب تم میری انسلٹ کر رہے ہو۔۔۔۔
منہال لفظ بہ لفظ چباتے ہووے بولا۔۔۔۔
لو سن لو۔۔۔
صرفان بڑی بی امّاں کی طرح بولا۔۔۔۔
اس میں انسلٹ کی کون سی بات ہے۔۔۔۔۔
جو تمہارا سچ ہے ۔۔۔
وہ بول رہا ہوں میں۔۔۔۔۔
اور یہ سب کو پتہ ہے لڑکے سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔۔۔۔
بس بس یہ نوٹنکی کل کے لیے بھی بچا کے رکھ لو ۔۔۔۔
آج ہی ختم مت کر دینا۔۔۔۔
منہال چیڑتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
کل کے لیے تو تم ایسے بول رہے ہو۔۔۔۔ جیسے تم مجھ سے روز ملتے ہو۔۔۔۔
صرفان لڑکیوں کی طرح کمر پر ہاتھ رکھ کر منہال کو گھورتے ہووے بولا۔۔۔۔
منہال سنجیدہ انداز اپناتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔
صرفان تم بہت سے ڈاکٹر کو جانتے ہوگے ۔۔۔۔
ہاں!!
صرفان بھی اُسکی طرح سنجیدہ ہوتے ہووے بولا۔۔۔
تو تمہاری نظر میں ایسا کوئی ڈاکٹر ہیں جو زیادہ بول نے والوں کا علاج کرتا ہو ۔۔۔
کیوں؟
تم کیوں پوچھ رہے ہو؟؟؟؟
بھئی مجھے تمہارا علاج کروانا ہے۔۔۔۔
منہال اپنی ہنسی کو روکتے ہوئے بولا۔۔۔
یانی میں تمہاری نظر میں زیادہ بولتا ہوں ۔۔۔۔
صرفان منہال کو گھورتے ہووے بولا۔۔۔۔۔
ہاں !!!
منہال نے بھی معصومیت سے ہاں میں گردن ہلائی۔۔۔۔
تو کون سا کم ہو۔۔۔۔
کم سے کم میں کسی کا دل تو حلقہ کر دیتا ہوں اپنے زیادہ بول نے سے۔۔۔
لیکن تم تو۔۔۔
ہمیشہ اپنے اس کم بولنے والے منہ کو لیکر دوسروں کو ٹینشن ہی دیتے ہو ۔۔۔۔۔
صرفان یہ سوچے بگیر بولے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔
کہ تمہارے یہ بول منہال کا درد تازہ بھی کر رہے ہیں یہ نہیں ۔۔۔۔۔
وہ بس اپنی ہی ہانکے جا رہا تھا۔۔۔۔
لیکن جب اُسنے منہال کا چہرا دیکھا جو ایک انجانے درد سے جُھوجھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
اُسے دیکھ کر اُس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔۔۔۔
Sorry
یار میرا مطلب تمہارا دل دکھانا نہیں تھا۔۔۔۔
صرفان پریشان ہوتے ہوئے بولا۔۔۔۔
کوئی بات نہیں!!!
منہال اپنے درد کو چھپاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
اچھا تم لیٹ جاؤ ۔۔۔۔
میں ابھی آتا ہوں۔۔۔۔
صرفان یہ بول کر اسکو اکیلا چھوڑ کر باہر چلا گیا۔۔۔
تاکہ منہال اپنا درد کم کر سکے۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔
تم جاؤ۔۔۔۔
منہال بولتا ہوا لیٹ گیا اور چہرا اس طرف کر لیا جہاں سے مائشا کا چہرا آدھا دکھ رہا تھا۔۔۔۔
دھوپ جیسا آدھا چمکتا چہرا کھڑی ناک اور ناک میں پہنا ہوا چھوٹا سا نوز پن سب سے بڑھ کر اُسکے چہرے کا نور شاید وہ اس حالت میں بھی حجاب میں تھی۔۔۔
اسے دیکھ کر منہال کے دل کی ایک ہارٹ بیٹ مس ہوئی۔۔۔
یا اللّٰہ تیری رحمت۔۔۔
تونے۔۔۔
اس لڑکی کا آدھا چہرا کتنا خوب صورت بنایا ہے۔۔۔۔
تو پورا چہرا کتنا خوب صورت بنایا ہوگا۔۔۔۔
منہال نے چھت کی طرف دیکھتے ہوئے اللہ کو یاد کیا۔۔۔۔
منہال کے دل نے پھر سے اس لڑکی کو دیکھنے کی ضد باندھ لی ۔۔۔۔
جو منہال نے پہلے ہی بڑی مشکل سے دبائی تھی۔۔۔۔۔
آخر یہ مجھے ہو کیا رہا ہے۔۔۔
منہال نے اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے سوچا۔۔۔۔
میرا دل بار بار اس لڑکی کو دیکھنے کی خواہش کیوں کر رہا ہے؟؟؟
جس کو میں جانتا بھی نہیں ہوں ۔۔۔۔
منہال خود سے بڑ بڑا تے ہووے بولا۔۔۔
نہیں !
میں اس طرف بلکل بھی نہیں دیخونگا۔۔۔

منہال نے اپنے دل کو سمجھانے کی ناکام سی کوشش کی۔۔۔۔
لیکن یہ بھی ناکام رہا اور اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہوئے شیشے کے اس پار مائشا کو دیکھ نے لگا۔۔۔۔
اسکو پتہ ہی نہیں چلا چار گھنٹے کب اور کیسے گزر گئے۔۔۔۔
منہال نے اپنی نظر نہ چاہتے ہوئے بھی مائشا پر سے ہٹا کر کلائی میں پہنی ہوئی قیمتی واچ میں ٹائم دیکھا تو صبح کے ساڑھے گیارہ ہو رہے تھے۔۔۔۔
یہ کیا مجھے اس روم میں چار گھنٹے ہو گئے منہال حیران ہوتے ہوئے خود سے بڑ بڑا یا۔۔۔۔۔۔
اتنی دیر میں صرفان بھی آ گیا تھا۔۔۔۔
کیا باتیں ہو رہی ہے خود سے۔۔۔۔
صرفان نے منہال سے اُسکی بلڈ بیگ سے جوڑی سرینچ کو ہٹاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کچھ بھی نہیں۔۔۔۔
بس میں یہ سوچ رہا تھا کب تک ہتے گی یہ سرينچ۔۔۔۔
منہال بات کو بدلتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
اچّھا ا ا.....
صرفان اچّھا کو خیچ تے ہوئے بولا ۔۔
ہاں نہ!! 
منہال نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔۔۔
ٹھیک ہیں۔۔۔
تم کہتے ہو تو مان لیتا ہوں۔۔۔۔
صرفان منہال کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔
اب تم مجھے دیکھتے ہی رہوگے یہ یہ سرينچ کو بھی حتاؤگے۔۔۔۔۔
مجھے شوٹنگ پر بھی جانا ہے۔۔۔۔
منہال صرفان کا دھیان خود سے ہٹانے کے لیے صرفان سے بولا۔۔۔۔۔۔
ہاں 
ہٹا تو رہا ہوں۔۔۔۔۔
کیا اب بچے کی جان لوگے ۔۔۔۔۔
صرفان منہال کو چھیڑتے ہووے بولا۔۔۔۔
تم جیسے بچے اس پورے ورلڈ میں پیدا ہوئے گئے نہ تو یہ الگ ہی ترقّی کریگا۔۔۔۔
منہال دانت پیستے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
ہاں دیکھ لو تم صرفان نے خود کی تعریف سنتے ہووے فخر سے کالر کھڑے کرتے ہوئے کہا۔۔۔
منہا بولا ہاں دیکھ تو رہا ہوں۔۔۔۔۔
اب ہٹ سامنے سے۔۔۔۔
مجھے گھر بھی جانا ہے ۔۔۔
ورنہ وہ گھر پر تمہاری پھپپو ہے وہ بھی تیری طرح تفتیش شروع کر دیگی۔۔۔۔۔۔
منہال صرفان کو ایک سائڈ کرتے ہوئے بولا۔۔۔
ہاں تو ٹھیک ہے کرتی ہیں۔۔۔۔
پھپوں۔۔۔۔
صرفان بولا۔۔۔۔۔۔
تم سب تھیک ہو۔۔۔
بس میں ہی ہوں اس دنیا میں غلط۔۔۔۔
منہال غصے میں بولا۔۔۔۔۔
اچّھا شانت اب میں تمسے کوئی بھی ایسی بات نہیں کرونگا ۔۔۔۔
پکہ صرفان منہال کو شانت کراتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
چل اب جلدی سے یہ جوس پی لے اور یہ کُچّھ بسکٹ ہے انکو کھا لے فر چلے جانا صرفان منہال کو ایک شاپر پکڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔
ویسے بھی آج صبح سے کُچّھ بھی نہیں کھایا تھا۔۔۔۔
منہال نے بڑ بڑا تے ہووے شاپر پکڑ لیا ۔۔۔۔
اور اس میں سے جوس اور بسکٹ نکال کر صرفان کو دیے اور جوس خود پینے لگا۔۔۔۔
جب منہال نے جوس ختم کر لیا تو صرفان سے بولا۔۔۔۔
اب میں چلتا ہوں ۔۔۔
بہت ٹائم ہو گیا۔۔۔
مجھے شوٹنگ پر بھی جانا ہے۔۔۔۔
اوک تم جاؤ اپنا دھیان رکھنا ۔۔۔۔۔
صرفان منہال کے گلے لگتے ہووے بولا۔۔۔۔
اور تم بھی۔۔۔۔۔
منہال نے صرفان سے کہا اور روم سے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔ 

*****************
دادو جائے نماز پر بیٹھ کر دعا میں جارو قطار رو رہی تھی۔۔۔ یا اللہ میری بچّی کی آزمائش کو ختم کر دے۔۔۔۔۔۔۔
میرے مولا وہ ننھی سی جان ہے۔۔۔۔۔
وہ ابھی اس دنیا کے جالموں کو نہیں جانتی۔۔۔۔۔
اے میرے اللہ تیرے علاوہ اُسکا کوئی نہیں ہیں۔۔ اللہ اُسنے اتنی سی عمر میں بہت دکھ دیکھے ہے۔۔۔۔۔ اور تیرے علاوہ اُسکے دکھوں کو کم کرنے والا کوئی نہیں ہے۔۔۔۔
اے اللہ آج وہ موت اور زندگی کے درمیان میں ہے۔۔۔۔
میرے اللہ اُسکا کوئی سہارا اس دنیا میں بنا دے۔۔۔
دادو نے آمین بولتے ہووے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔
اور جائے نماز کو تہہ کر کے وہیں صوفے پر رکھ دی۔۔۔۔۔
اور جاکر بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔
دادو نے مائشا کی طبیعت پوچھنے کے لیے شاہزیب کو فون ملایا۔۔۔
جو کُچّھ دیر بعد اٹھا لیا گیا۔۔۔۔۔
ہیلو شاہزیب بیٹا 
دادو شاہزیب کی سلام کاجواب دیتی ہوئی بے صبری سے بولی۔۔۔۔
بیٹا مایو اب کیسی ہے۔۔۔۔
دوسری طرف سے نہ جانے کیا کہا گیا تھا۔۔۔
کہ دادو کی زبان سے بے اختیار اللّٰہ تیرا شکر ہے۔۔۔
بے شک تو بڑا رحیم ہے نکلا۔۔۔
بیٹا بلڈ کہا سے ملا۔۔۔
دوسری طرف شاہزیب نے کیا کہا تھا۔۔۔۔۔
دادو بولی چل ٹھیک ہے میں رکھتی ہوں فون۔۔۔۔۔۔
مجھے شکرانے کے نوافل پڑھنے ہے۔۔۔۔
دادو نے یہ بول کر فون کاٹ دیا۔۔۔۔
اور نوافل پڑھنے کے لیے جائے نماز پر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔
دادو نوافل پڑھ کر بیڈ پر آکر لیٹ گئی۔۔۔۔۔۔۔
اور ایک بار پھر تلخ ماضی میں کھو گئی۔۔۔

**************
ماضی

سلمان شاہ اپنا کچھ ضروری سامان لے کر نیچے ڈرائنگ روم میں اپنی ماما کے پاس گیا ۔۔۔۔۔۔
جو ابھی بھی ایسے ہی کھڑی تھی جیسے وہ کچھ دیر پہلے چھوڑ کر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
ماما میں جا رہا ہوں۔۔
سلمان شاہ نے اپنے ماما کے ہاتھوں کا بوسا لیتے ہوئے بولا۔۔۔
بیٹا مت جاؤ۔۔۔
تمہارے بابا ابھی غصے میں ہے اس لیے وہ بول رہے ہیں۔۔۔
رکسانا بیگم روتے ہوئے منہال سے کہا۔۔
نہیں ماما ۔۔۔
یہ آپ بھی جانتی ہے اور میں بھی۔۔۔۔۔۔
کہ بابا کبھی کوئی بات ایسے ہی نہیں کہتے۔۔۔۔۔۔۔
اور میں بھی انکا بیٹا ہوں۔۔
اس لیے آپ مجھے جانے دے۔۔
سلمان ن ن......
رکسانا بیگم چلاتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔
تم سنتے کیوں نہیں ہو؟؟؟؟
میں آپکے بنا کیسے جئیونگی۔۔۔۔۔۔۔
بیٹا اپنی ماما کی بات مان جاؤ نہ۔۔۔۔۔
رکسانا بیگم سلمان کا چہرا اپنا ہاتھ کے پیالوں میں لیتی ہوئی بےبس سی بولی۔۔۔
ایک پل کے لیے سلمان شاہ کا دل کرا چھوڑ اپنی ضد اور لگ جا اپنی جان سے پیاری ماما کے گلے۔۔۔
لیکن پھر وہی انا درمیان میں آ گئی۔۔۔۔
سلمان نے اپنے دل پر پتھّر رکھ کر اپنی ماما سے بولا۔۔۔۔۔
ماما بابا کا اور میرے چھوٹے بھائیوں کا خیال رکھنا۔۔۔
اللہ حافظ
سلمان یہ بولتا ہوا بنا پیچھے دیکھے حویلی سے باہر نکلتا چلا گیا۔۔
سلمان ن ن ن ........
اور رکسانا بیگم روتے ہوئے سلمان کا نام پکارتے ہوئے وہیں بیٹھتی چلی گئی۔۔۔۔
پاس کھڑے ننھے ننھے سے بھائی ماما کے پاس روتے ہوئے آئے اور اپنی ماما سے بولے۔۔۔۔
ماما بھیّا کہا گے ہے ؟؟ 
اور
آپ کیوں رو رہی ہے؟؟؟؟؟؟
رکسانا بیگم نے روتے ہوئے اپنے تینوں بیٹوں کو اپنی باہوں میں بھرتی ہوئی بولی۔۔۔۔
چلا گیا تم سب کا بھیّا
وہ ہم سب کوہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلا گیا۔۔
اور یہ سب تمہارے بابا کی وجہ س ہوا ہے ۔۔۔۔
میں کبھی معاف نہیں کرونگی۔۔
کبھی بھی نہیں۔۔۔
رکسانا بیگم زارو قطار رونے لگی۔۔۔۔۔
دور اپنے روم کے دروازے کے پیچھے کھڑے ہوئے احسان شاہ نے بھی اپنی روتی ہوئی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا۔۔۔۔۔
انکو ابھی بھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ انکا لاڈلا یہ گھر چھوڑ کر جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔
احسان شاہ نے تو دھمکیاں لیے سے تھی کے وہ گھر چھوڑنے کے ڈرر سے ڈاکٹر بننے کے لئے تیار ہو جائےگا لکین آج سلمان نس گھر چھوڑ کر یہ ثابت کر دیا کی وہ بھی احسان شاہ کا ہی بیٹا ہے۔۔۔۔۔
وہ یہ سوچتے ہوئے بیڈ پر جاکر نڈھال سے ہوکر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔
دادو ماضی سے نکلتی ہوئی ۔۔۔۔۔۔
خود سے بڑ بڑائی۔۔۔۔۔
احسان صاحب آپ نے ایک ماں کو اُسکے بیٹے سے دور کرکے۔۔۔۔
یہ کہتے ہوئے دادو زارو قطار رونے لگی۔۔۔۔۔۔

************************
السلام وعلیکم 
کیسے ہیں آپ سب اُمید ہے خیریت سے ہی ہوگے۔۔۔۔۔
کبھی روگ نہ لگانا پیار کا ناول قسط 2
از قلم
ملیحہ چودھری
پوری ہوئی۔۔۔
انشاءاللہ اگلی قسط آپکو جلد ہی  مل جائے گی ۔


   12
8 Comments

नंदिता राय

08-Sep-2022 08:06 PM

👏👌

Reply

Simran Bhagat

06-Sep-2022 12:10 PM

واہ واہ واہ , بہت زبردست لکھا ہے🔥🔥

Reply

Milind salve

23-Mar-2022 11:57 PM

Good

Reply